Sunday, 14 June 2015

🌴 دهوئيں سے بچو 🌴

🌴 دهوئيں سے بچو 🌴

📌 نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں شر کے ساتھ تھے تو اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر عنائت فرمائی، تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: "ہاں" حذیفہ نے کہا: تو کیا اُس شر کے بعد خیر ہو گی؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، لیکن ساتھ میں کچھ دھواں بھی ہو گا" میں نے کہا: دھوئیں سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: "ایسی قوم جو میری راہنمائی سے ہٹ کر ہدایات دینگے اور میری سنت سے ہٹ کر طریقے وضع کرینگے، انکی کچھ باتوں کو تم پہچان لو گے اور کچھ تمہارے لئے اوپری ہونگی" (سمجھ سے باہر ہوں گی) حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: "ہاں! وہ جہنم کے دروازوں پر بلانے والے ہونگے، جو بھی انکی بات مان لے گا اسے وہ جہنم میں ڈال دینگے" حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ! ہمیں انکی صفات بتلا دیں۔ آپ نے فرمایا: "وہ ہماری ہی نسل سے ہونگے، اور ہماری ہی زبان بولیں گے" میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس وقت کے بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کو لازمی پکڑنا" میں نے کہا: اگر اس وقت کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ہی کوئی امام ہو؟ آپ نے فرمایا: "تو پھر ان تمام فرقوں سے الگ تھلگ ہو جانا، چاہے تمہیں موت کے آنے تک درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں، تم ان سے الگ ہی رہنا"
(صحيح مسلم: 1847)
📌 اس عظیم حدیث میں ہمیں بتلایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہے، اور ان کے ساتھ تعاون کرے، چاہے یہ جماعت کسی بھی جگہ، جزیرہ يا ملک میں هو
💠 چنانچہ جب کسی مسلمان کو ایسی جماعت ملے جو حق کی طرف بلاتی ہو، تو انکی مدد کرے اور انکے شانہ بشانہ چلے، اور انکی ہمت باندھے، اور حق و بصیرت پر قائم رہنے کی تلقین کرے، اور اگر اسے کوئی جماعت نظر ہی نہ آئے تو حق پر اکیلا ہی ڈٹ جائے، وہ اکیلا ہی جماعت ہو گا
جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عَمَرْو بن میمون سے کہا تھا: "جماعت اسے کہتے ہیں جو حق کے مطابق ہو، چاہے تم اکیلے ہی کیوں نہ ہو" والله أعلم

📌 اس لئے ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ تلاشِ حق کیلئے سرگرداں رہے، اور جیسے ہی کسی بھی جگہ پر حق یعنی کتاب و سنت اور صحیح عقیدہ کی دعوت دینے والے اسلامی مرکز، یا جماعت کے متعلق علم ہو تو ان کے ساتھ مل جائے اور حق سیکھے، پھر اہلِ حق میں شامل ہو کر اس پر ڈٹ جائے
ایک مسلمان کیلئے یہی واجب ہے ❗
💠 اور آجکل الحمدللہ ایسی بہت سی جماعتیں پائی جاتی ہیں جو حق کی طرف دعوت دیتی ہیں، جیسے کہ سعودی عرب، یمن، بحرين، مصر، شام، افریقہ، یورپ، امریکہ، ہندوستان، پاکستان وغیرہ ساری دنیا میں ایسی جماعتیں اور اسلامی مراکز موجود ہیں جو حق کی دعوت دیتی ہیں اور حق کی خوشخبری لوگوں تک پہنچاتی ہیں، اور مخالفتِ حق سے خبردار کرتی ہیں
💠 چنانچہ حق کے متلاشی مسلمان کو چاہئے کہ ان جماعتوں کے بارے میں کھوج لگائے، اور جب کوئی جماعت، یا ایسا مرکز ملے جو قرآن کی دعوت دے، اور سنت رسول اللہ کی طرف بلائے تو ان کے پیچھے چل پڑے، اور انہی کا ہو کر رہ جائے، مثال کے طور پر مصر اور سوڈان میں انصار السنہ، اور اہل حدیث پاکستان اور ہندوستان میں (جن كی خاص علامت يه ہے كہ دين كے معامله ميں اپنے اكابرين كی بات جو قرآن و حديث سے ثابت هو مانتے ہیں، ورنہ ٹھکرا دیتے هیں)
اور بھی ان کے علاوہ جماعتیں ہیں جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے ہیں، صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ کسی قبر والے یا کسی اور کو نہیں پکارتے
🌹💠 الدين النصيحة 💠🌹

Friday, 29 May 2015

♦ قرآنی سورتوں کے کچھ فضائل ♦


♦  سورہ فاتحہ قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت ہے    (بخاری 4474)
♦ ایک حدیث میں سورہ فاتحہ کو اسیا نور کہا گیا ہے جو پہلے کسی کو نہیں عطا کیا گیا  (مسلم 817)

♦ جس گھر میں سورہ بقرہ تلاوت کی جاتی ہے شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے  (ترمذی 2877)

♦ جو ہر نماز کے بعد آیت الکرسی کی تلاوت کرتا ہے اسے جنت میں داخلے سے صرف موت نے روک رکھا ہے
(نسائی 30/6)  

♦ سوتے وقت آیت الکرسی کی تلاوت کرنے والے پر ساری رات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک محافظ مقرر رہتا ہے اور ساری رات شیطان اس کے قریب نہیں آسکتا (بخاری 2311)

♦ ایک حدیث میں آیت الکرسی کو قرآن کی سب سے عظیم آیت قرار دیا گیا ہے  (مسلم 810)

♦ جو شخص رات کے وقت سورہ بقرہ کی آخری دو آیات تلاوت کرے گا یہ اسے (ہر قسم کے نقصان شیطان اور تمام آفات سے بچاؤ کے لئے) کافی ہو جائیں گی  (مسلم 807)

♦ جو سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کرے کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچا لیا جائے گا  (مسلم 809)  
♦ جو شخص سورہ الملک کی تلاوت کرتا رہا تو سورت اس کے حق میں سفارش کرے گی حتی کہ اسے بخش دیا جائے گا  (ترمذی 2886)

♦ سورہ اخلاص اجر و ثواب میں ایک تہائی قرآن کے برابر ہے  (مسلم  811)

♦ ایک آدمی کو سورہ الاخلاص سے بہت محبت تھی اور اس محبت کی وجہ سے وہ اس صورت کو ہر نماز کی قرآت کے اختتام پر پڑهتا تها الله تعالى نے اس کی اس صورت سے محبت کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کر دیا
(ترمذی 2901)

♦رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (شیطان سے پناہ مانگنے کے لیے) سورہ الفلق اور سورہ الناس جسی قرآن میں اور کوئی آیات نہیں
(مسلم  814)

 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر مسلمان کو قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین

Tuesday, 28 April 2015

¶جادوکی شرعی حیثیت¶

* 1 *جـادوکـی شــرعی حــیثیــت
جادوکامعنی:
جادو:افسوں-سحر-ٹونا-منتر
(اظہراللغات248)
کفریہ عمل:
اورالبتہ تحقیق انھوںنےجان لیاالبتہ جس نےخریدا اس
< جادو >کونہ ہوگااس کےلیے آخرت میںکوئی حصہ
{ البقرۃ102 }
دوسرا مقام:
یہودیوں بارےفرمایا
یقین لاتےہیںساتھ بتوںکےاورشیطان کے
[ النسآ51 ]
سیدناعمر
رضی اللہ عنہ
فرماتےہیںالجبت،سے
مرادجادواورطاغوت سےمرادشیاطین ہیں
( تفسیرابن جریرطبری )
آوازاسلام میسج
سروس پاکستان
-------------------------------------------------------------------
* 2 *جـادوکـی شــرعی حــیثیــت
  سیدناجابر
رضی اللہ عنہ
فرماتےہیںطاغوت وہ کاہن ہیںجن کےپاس  شیطان جن آتےہیں
کاہن ہرقبیلےکاالگ
    الگ ہوتاہے
( صحیح بخاری مع فتح الباری معلقا317
/8(
کاہن:بمعنی.جنوںسے
دریافت کرکےغیب کی خبریںبتانےوالا
< اظھراللغات428 >
 اشرف الحواشی از شیخ الحدیث مولانا محمدعبدہ الفلاح رحمہ اللہ،تفسیر الانعام51میںہے
الجبت، بت کوکہتے
ہیںاورجادوگرکاہن،
 ٹونےٹوٹکےاوراس قسم کی سب چیزیں
  الجبت میںداخل
   ہیں.....
آوازاســـــلام میـــج
ســـروس پاکـــــتان
----------------------------------------------------

* 3 * جـادوکـی
شــرعی حــیثیــت
.. . . .حدیث میںہے
شگون لیناپرندوںکو
اڑاکر
اورزمین پر
لکیریںکھینچ کر
فال گری کرنا
"جبت"میںشامل ہیں
اورالطاغوت سےمراد
شیطان ہے
اورہروہ شخص جومعاصی کی دعوت دے
اس پریہ لفظ بولا
جاتاہے
عرب میںبتوںکے
ترجمان ہوتےتھے
جوان کی زبان سے
جھوٹ نقل کرتے
اورلوگوںکوگمراہ کرتے
ان کوطاغوت
کہاجاتاتھا
معاصی:بمعنی.گناہ
( اشرف الحواشی.
ازقلم.شیخ الحدیث
مولانامحمدعبدہ الفلاح رحمہ اللہ.تفسیرالانعام51 بحوالہ کبیر. )
آوازاســـــلام میـــج
ســـروس پاکـــــتان


----------------------------------------------------

* 4 *جـادوکـی شــرعی حــیثیــت
ســیدناابـوھــریرہ
رضی اللہ عنہ
سےروایت ہے
وہ نبــی
صلی اللہ علیہ وسلم
سےبیان کرتےہیںکہ آپ نےفرمایاسات ہلاکت خیزاورتباہ کن باتوںسےبچو
لوگوںنےعرض کیا
یارسـول اللــہ
صلی اللہ علیہ وسلم
وہ کیاہیں؟
آپ نےفرمایا
اللــہ کےساتھ شرک کرنا
جادوکرنا
اس جان کوناحق قتل کرناجسےاللہ نےحرام کیاہو
سودکھانا
یتیم کامال اڑالینا
میدان جنگ سےراہ فراراختیارکرنا
اورپاک دامن اوربے
خبرعورتوںکوبدکاری کی تہمت لگانا
[بخاری2766]
آوازاســــلام میــج
ســروس پاکـــتان

----------------------------------------------------
‏* 5*جـادوکـی شــرعی حــیثیــت
®سوال:جادوکےتوڑکا طریقہ®
®جواب
اس کےلیے ان کتب کامطالعہ کریں
جادوچلنےکی علامات اورطریقۂ علاج
مفصل موجود ھے
ھرمرض کا دعا اوردم سےعلاج
سعید بن علی القحطانی
2.تفسیرالعشرالاخیر
مصنفین علمائے
سعودی عرب
مفت منگانےیا نیٹ پرپڑھنےکےلیے
Urd@tafseer.
info
ویب سائٹ
WWW. TAFSEER.INFO
3.غم کا علاج
ڈاکٹرعبد الرحمن بن ناصرالسعدی
اورکتاب التوحید
ڈاکٹرصالح بن فوزان الفوزان
اس کےعلاوہ
تلاوت قرآن،
خصوصا البقرۃ،
الاخلاص،الفلق،الناس
،آیت الکرسی
شافی علاج ہے
آواز®اسلام®میسج®سروس®پاکستان

----------------------------------------------------

¶¶‏¶6جادوکی شرعی حیثیت¶

.....یاپھرمریضوںکے
لیےشرکیہ طلسم
( جادو )اورشیطانی تعویذلکھتےہیں
پھراس کوتختیوںمیں
محفوظ کرکے
مریضوںکی گردنوں
میںلٹکاتےھیں
یاگھرکےصندوق میں
رکھواتےہیں
اسی طرح بعض تو
غیب کی خبریںدینے
والےاورگمشدہ چیزوںکاپتہ بتانے
والےکی حیثیت سے
اپنےآپ کوظاھر
کرتےہیں
پھرجاھل لوگ ان کےپاس آتےاور
گمشدہ چیزوں
کےمتعلق ان سے
پوچھتےہیں
تویہ انھیںان کی خبردیتےھیں.....

¶آوازاسلام میسج سروس پاکستان

----------------------------------------------------

* 7 *جادوکی
 شرعی حیثیت
.....یاانھیںاپنے
شیطانی موکلوںکے
ذریعےحاضرکردیتے
ہیں
اسی طرح بعض حضرات صاحب کشف(پوشیدہ راز
ظاھرکرنےوالے)و
کرامات بن کرنمودار
ھوتےہیں
مثلاآگ ان پراثر
نہیںکرتی،اورنہ ھتھیارسےانھیںچوٹ لگتی ھےکبھی کبھی یہ اپنےآپ کو
گاڑی کےنیچےڈال دیتےہیںاس کےعلاوہ
بہت طرح کی شعبدہ بازیاںدکھاتےھیںجو
دراصل جادواور
شیطانی اعمال ہوتے
ھیںتاکہ لوگ فتنہ وفسادمیںمبتلاہوںیا
پھریہ سب خیالی اعمال ھیںجن کی کوئی حقیقت نہیں
بلکہ خفیہ حیلے
ہیں.....
آوازاسلام میسج
سروس پاکستان
----------------------------------------------------
* 8 *جادوکی
 شرعی حیثیت
.....جوبڑی مہارت کےساتھ لوگوںکو
دکھائےجاتےہیں
جیسےفرعون کے
جادوگروںنےلاٹھی اوررسی کےجادو
دکھائےتھے
*1عجیب واقعہ*
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے
بطحائی احمدی
( رفاعی )جادوگروں
کےساتھ مناظرہ میں
درج ہے
شیخ بطحائی رفاعی نےبلندآوازمیںکہا
ہمارےایسےایسے
احوال وکوائف ہیں
پھرخارق عادات چیزوںمثلاآگ وغیرہ کےاثرات کاذکر
کرتےہوئےکہا
ہمارےان کوائف کو تسلیم کیاجاناچاہیے
اس پرشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےغضبناک ہوکر فرمایا.....

~آواز~اسلام~
----------------------------------------------------
9جادوکی شرعی حیثیت
.....میںدنیاکےمشرق ومغرب کےھراحمدی کوکہناچاھوںگا
کہ انہوںنےآگ میں جوکچھ کیا بلکل اسی طرح اس چیزکو
میںبھی کرسکتاھوں
اوراس میںجوجل جائےگااس کوشکست کھانی پڑےگی
بلکہ میںیہ بھی کہوںگاکہ اس پر
اللہ تعالی کی لعنت ھو
اوریہ اس وقت ھوگا
جب ھمارےجسم سرکہ اورگرم پانی سےدھل جائیںگے
یہ سن کرامرائے
سلطنت اورعام لوگوں
نےھم سےپوچھا
کہ کیابات ھےتومیں
نےکہاکہ ان لوگوں
کےکچھ حیلےبہانے
ھیںجن کےذریعےیہ آگ میںگھس جاتے
ھیں
مثلامینڈک کاتیل،
ناریل کاچھلکاوغیرہ
آواز اسلام

----------------------------------------------------
* 10 *جادوکی
  شرعی حیثیت
.....ناریل کاچھلکا اورطلق پتھروغیرہ سےکچھ تیارکرکے جسم پرمل لیتےہیں
یہ سن کرلوگوںنے
شورمچایا
اس پراس شخص نے
آگ میںگھسنےکی قدرت کااظہارکیااور
  کہاکہ ہم اورآپ کٹہرے( لوہےیالکڑی کےجنگلے )میںلپیٹ   دیےجائیںاورہمارے
  جسموںکوکبریت
  سلائی سےمل دیا
جائے
میںنےکہاچلوٹھیک ہےپھرباربارمیںتقاضا
کرتارہا
اس پراس نےاپناہاتھ
 بڑہایاتاکہ قمیص نکالے
میںنےکہاابھی نہیں
یہاںتک کہ ہم گرم پانی اورسرکہ سےنہا
لیں . . . . .
 آواز اسلام
میسج سروس
 پاکستان
----------------------------------------------------
_11_جادوکی شرعی حیثیت
.....پھرانہوںنےاپنی عادت کےمطابق اپنے
وھم کا اظھارکیا اور
کہا
جوامیرکوچاھتاھے
وہ لکڑی یالکڑی کا گٹھاحاضرکرے
اس پرمیںنےکہا
لکڑی لاتےلاتے
دیرھوجائےگی
لوگ منتشرھو
جائیںگے
اس سےاچھاھے
قندیل جلادی جائے پھرمیںبھی اورتم بھی دونوںاس میں
اپنی اپنی انگلیاں
ڈالیں
اوریہ عمل انگلیوںکودھونےکے
بعدھوگا
اس پرجس کی انگلی جلی اللہ تعالی کی اس پر
لعنت ھوگی
یا وہ مغلوب ھوگا
جب میںنےیہ بات کہی
تووہ بدل گیا
اورذلیل و خوارھوا. . . . .
آوازاسلام میسج
سروس پاکستان
----------------------------------------------------
-12-جادوکی شرعی حیثیت
.....[ مجموعہ الفتاوی446_465/ 11 ]
قصہ بیان کرنےکا
مقصدیہ تھاکہ اس طرح کےفریب کار
اسی طرح کےمکرو
  فریب اورخفیہ حیلوںسےعام لوگوں
کوبےوقوف بناتےہیں
فضیلۃ الشیخ ڈاکڑ
صالح بن فوزان الفوزان
کتاب التوحید75تا 77پرلکھتےھیں
جادو،کہانت،اور
نجومی کاپیشہ حرام
 اورشیطان کےایجاد
کردہ ھیں
جوعقیدہ میںنقص پیداکرتےھیں
سحر< جادو >ایک سفلی<نیچےکا>عمل ھےجس کےاسباب بہت ہی پوشیدہ و
باریک ھوتےھیں
اس لیےاسےسحرکہا
جاتاھےکہ یہ سفلی اعمال سےوجودمیں
آتاھے.....
آوازاسلام
----------------------------------------------------
.13.جادوکی شرعی حیثیت
...جسےہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتی ںسحرمیں منترجھاڑپھونک،کچھ کلمات،جڑی بوٹیاں
اوردھونی وغیرہ سب شامل ھوتےہیں
سحرکےوجودمیں
کوئی شک نہیں
بعض سحردلوںپراور
بعض جسموںپراثر
کرتاھے
جس کےاثرسےآدمی بیماربھی پڑجاتااور
بعض مربھی جاتےہیں
اس سےمیاں بیوی کے
درمیان تفریق(جدائی
)بھی ھوجاتی ہے
سحرکا اثراللہ تعالی کی تقدیری و
کائناتی اجازت سے
ھے
یہ سراسرشیطانی عمل ہے
بعض لوگ توسحر
سیکھنےکےلیےشرک اورارواح خبیثہ
< شیطانیروحوں>سے
تقرب...
آوازاسلام میسج
سروس پاکستان
---------------------------------------------------
14_.جادوکی شرعی حیثیت
...ارواح خبیثہ(شیطانی
روحوں)سےتقرب حاصل کرنےکےلیے
بہت سےشیطانی اعمال کرتےھیں
پھرشرک کےذریعہ ان کی خدمات حاصل کرتےھیں
.....آگےصفہ77پر <البقرۃ102>کے
تحت جادوگرکےکفرکا
ذکرکرتےھوئے لکھتےھیں
جب معاملہ ایساھے
تواس میںکوئی شک نہیںکہ یہ سراسرکفر
وشرک ھےجوعقیدہ کےخلاف ھے
ایسی حرکتوںکا
ارتکاب کرنےوالےکا
قتل واجب ھےجیسے
اکابرصحابہ رضی اللہ عنھم کی1
جماعت نےجادوگروں
کوقتل کیاھے{جس کےمفصل دلائل آوازاسلام اپنےسلسلے
شرم تم کومگرنہیں
آتی میںدےچکی ھے
آوازاسلام
---------------------------------------------------
15جادوکی شرعی حیثیت
الشیخ عبداللہ بن احمدالحویل"آسان توحید122پہ لکھتے
ھیںوہ جادوجس میں
گنڈےدوائیںجڑی بوٹیاںوغیرہ اوراس طرح کی چیزیں
استعمال کی جاتی ھیںاس میںھاتھ کا
کھیل اورنظربندی بھی شامل ھے
اگرجادوکاتعلق اس قسم سےھےتوایسے
انسان کوکافرتونہیں
کہاجائےگالیکن ایسا
انسان فاسق اور
گناھگارضرورھوگا
جب حاکم وقت ضرورت محسوس کرے...
آواز اسلام
---------------------------------------------------
‏®16جادوکی شرعی حیثیت®
.....جب حاکم وقت ضرورت محسوس کرےتواس شخص کو
نقصان سےبچنےکے
لیےقتل کرسکتا
ھے
®مولاناعبدہ الفلاح رحمہ اللہ اشرف الحواشی.تفسیرالبقرۃ102کےتحت لکھتے ھیں..."فلاتکفر"سےثابت ھوتاھےکہ جادوسیکھناکفرھے اوراگروہ جادوکلمات کفرپرمشتمل ھےتو ایساساحرکافرھوگا اوراس کی سزاقتل ھے حدیث میںھےکہ جادوگرکی سزاتلوار سےقتل کرڈالناھے ورنہ نجومی یاکاھن کوقتل کرناجائزنہیں ھےھاںتعزیزھوسکتی ھے( قرطبی )کاھن یا نجومی سےقسمت معلوم کرانا اور اس کی تصدیق کرناکفر ھے< ابن کثیربحوالہ المستدرک >
®آوازاسلام®
میسج®سروس®
®پاکستان®
---------------------------------------------------
‏¶17جادوکی شرعی حیثیت¶
اب ڈاکٹرصالح بن فوزان الفوزان کی عبارت کابقیہ حصہ
آج کل لوگ جادو
اورجادوگروںکے
معاملہ میںسستی اور
ڈھیل برتنےلگےہیں
بلکہ اسےاب ایسافن شمارکرلیاگیاہےجس پرلوگ فخرکرتےہیں
اوراصحاب فن کی ہمت افزائی کےلیے
انھیںبڑےبڑےانعامات
دیےجاتےہیں
جادوگروںکےاعزاز
میںمحفلیںجمتی ہیں
ہزاروںشائقین کو
دعوت دےکر
جادوگری دکھائی جاتی ہےان کے
درمیان مقابلےکرائے
جاتےہیں...
آواز¶اسلام¶
میسج¶سروس¶
¶پاکستان¶
---------------------------------------------------
‏‎◆18جادوکی شرعی حیثیت◆
...یہ ساری حرکتیں
دین سےناواقفیت اور عقیدہ کےمعاملہ میںغفلت ولاپروائی کانتیجہ ہیں
جس سےکچھ کھلاڑیوںکودین کے
مسلمات(تسلیم شدہ عقائد)سےکھیلنےکا
موقع دیاجاتاہے
<کتاب التوحید75تا77ڈاکٹرصالح بن فوزان الفوزان>
◆فال نکالنا
لغت میں"تطیر"سے
ماخوذہےجس کامعنی ھے
کسی بھی چیزسےبد
فالی یاپھرنیک فال لینا
◆اصطلاح میںایسی بدفالی لینا[نحوست پکڑنا]جوکسی سنی گئی یادیکھی گئی یادیگرکسی معلوم چیزکےنتیجہ میںہو
(آسان توحید128)
الشیخ عبداللہ بن احمدالحویل
آواز◆اسلام◆
---------------------------------------------------
ღ19جادوکی شرعی حیثیتღ
سیدناقبیصہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
ღنبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا
پرندوںکواڑاکر
فال لینا
زمین پر
لکیریںکھینچنا
( علم رمل )
اورکسی چیزکو
دیکھ کربدشگونی لینا
ღیہ سب جادوکی اقسام ہیں
عوف کہتےہیں
العیافۃ سےمراد
ღپرندوںکواڑاکرفال لینا
اورالطرق سے
ღزمین میںلکیریںکھینچنا مرادہے      <جسےآج کل رمل کہاجاتاہے>      حسن بصری رحہ کہتےہیں
شیطانی آہ وبکاء اور
چیخ وپکارجبت ہے
{ سنن ابی داؤد3907+3908 }
کتاب الکھانۃ
آوازღاسلامღمیسج
ღسروس پاکستانღ
---------------------------------------------------
®جادوکی شرعی حیثیت®20
رمل=1علم جس میں
ہندسوںاورخطوط کے
ذریعے
غیب کی بات
دریافت کرتےھیں
( اظھراللغات239 )
دوسرےلفظوںمیں
مجھےکہنےدیجیےکہ وہ نام نہادعلم جوکفر
تک لےجاتاھے
®الحدیث
سیدناابوھریرہ
رضی اللہ عنہ سے
روایت ھےکہ
رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم
نےفرمایا
چھوت لگنا
بدشگونی لینا
الوکامنحوس ہونا
اورماہ صفرکو
بےبرکت خیال کرنا
سب لغوخیالات ھیں
البتہ جذام والےسے
یوں بھاگ
جیساکہ شیرسے
بھاگتےہو
(بخاری5707)
چھوت=ناپاکی-پلیدی
لغو=بےکار
جذام=کوڑھ
آواز®اسلام®میسج
سروس پاکستان
---------------------------------------------------
‏٪ 21 جادو کی شرعی حیثیت ٪
٪ سیدنا عبداللہ بن عمر ٪
رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے
٪ رسول اللہ ٪
صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا
نہ بیماری متعدی ہوتی ہے
نہ بد شگونی کوئی چیز ہے
اور نہ الوکی کوئی حقیقت ہے
ایک آدمی نےاٹھ کر
عرض کیا
اے اللہ کے رسول
ایک خارشی اونٹ سے تمام اونٹوں کو
خارش لگ جاتی ہے
   اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا
یہ تقدیر ہے
پہلے اونٹ کوکس نے خارش لگائی
{ سنن ابن ماجہ3540
ابواب الطب جلد4 }
٪آواز٪اسلام٪میسج٪
 ٪03073293893٪
  ٪سروس٪پاکستان٪
---------------------------------------------------
¶جادوکی شرعی حیثیت¶22
جن کی کوئی حقیقت نہیں

سیدناعبداللہ بن عباس
   رضی اللہ عنہما
  سےروایت ہے
¶رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم
نےفرمایا
چھوت کی کوئی
  حقیقت نہیں
بد شگونی کی کوئی
   حقیقت نہیں
کھوپڑی کے الوکی
 کوئی حقیقت نہیں
  اورصفرکی کوئی
  حقیقت نہیں
[ سنن ابن ماجہ3539
ابواب الطب جلد 4 ]
* کھوپڑی کا الو
=>اہل عرب کاخیال تھاکہ مقتول کابدلہ نہ لینےکی صورت میںاس کی کھوپڑی سے1الونکل کر چیختاہےبدلہ لینےسے مقتول کی روح خوش ہوتی ہے.....
آواز¶اسلام¶میسج¶
¶پاکستان¶سروس¶
---------------------------------------------------
‏‎◆23جادوکی شرعی حیثیت◆
.....اورالوخاموش ھو
جاتاھے
◆صفر
محرم سےاگلامہینہ جسےاھل عرب
اوراب
 شیعہ منحوس
 سمجھتےھیں
عربوںکےمطابق
پیٹ میں1کیڑے
کی موجودگی
باعث بھوگ لگتی ھے
جسےوہ صفرکہتے
امام بخاری رحمہ اللہ کےنزدیک صفر1پیٹ
 کی بیماری کانام ہے
جس کی حقیقت یہ ھےکہ انسان کےپیٹ میں1کیڑاپیداہوجاتا
ھےجب وہ کاٹتاھے
توانسان کارنگ پیلا
پڑجاتاہےبالآخراس
 سےموت واقع ھو
جاتی ہےدورجاھلیت
 میںاسےمتعدی مرض
 شمارکیاجاتاتھاجس
 کی نفی کی گئی
آواز◆اسلام◆میسج◆سروس◆پاکستان
---------------------------------------------------
ღجادوکی شرعی حیثیتღ24
فضل بن عباس
رضی اللہ عنہما
سےروایت ہےکہ
ღنبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم
نےفرمایا
بدشگونی وہ ہےجو
تجھےکسی کام کے
کرنےپرآمادہ کردے
یاکسی کام کےکرنے
سےروک دے
( مسنداحمد بن حنبل 213\1 )
ღ2
سیدناعبداللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ
سےروایت ہے
ღرسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم
نےفرمایا
بدفالی شرک ہے
اورہم میںسےہرکسی کوکوئی نہ کوئی وہم ہو ہی جاتا ہے
لیکنღاللہ تعالیღ
توکل کی وجہ سے
اسےدفع کردیتاہے
<سنن ابن ماجہ3538
ابواب الطب جلد 4>
آوازღاسلامღ
میسجღسروسღ
پاکستانღ
---------------------------------------------------
® جادوکی شرعی حیثیت®25
®الحدیث
سیدناعمران بن حصین
رضی اللہ عنہ
بیان کرتےھیں
®نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم
نےفرمایا
جس شخص نےفال نکالی
یاجس کےلیےفال نکالی گئی
جس نےکہانت کی
یاجس کےلیےکہانت کی گئی
جس نےجادوکیا
یاجس کےلیےجادو
کیاگیا
اورجوکسی کاہن کے
پاس آیا
اوراس کی باتوںکی تصدیق کی
توان<سب کےسب> نےاس دین کےساتھ کفرکیا
جودین
®محمد
صلی اللہ علیہ وسلم
پرنازل کیاگیا
{ مسندالبزار3044 }
آواز®اسلام®
---------------------------------------------------
®جادوکی شرعی حیثیت®26
احادیث®
شرک ہے

بدشگونی لینا شرک کاکام ھے
(رواہ ابوداؤد.ترمذی)
دین کےساتھ کفر
®سیدنا ابوہریرۃ
رضی اللہ عنہ
فرماتےھیں
®نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم
نےفرمایا
جوکوئی کسی کاھن
کےپاس گیااوراس کی باتوںکی تصدیق کی
تووہ سمجھ لےکہ اس نےاس دین کےساتھ کفرکیاجومحمد
صلی اللہ علیہ وسلم
پرنازل ہوا ھے
< سنن ابی داؤد3904کتاب الکھانۃ >
جوکوئی کس کاہن یانجومی کےپاس گیا
اوراس کی بتائی ھوئی باتوںکواس نے
سچ مانا
تووہ سمجھ لےکہ اس نےاس دین کےساتھ کفرکیاجومحمدصہ پرنازل ہوا ھے
{ سنن الکبری للبیھقی135/8 }
آواز®اسلام®میسج®سروس®پاکستان
---------------------------------------------------
‏٪27جادوکی شرعی حیثیت٪
٪امام بغوی٪
رحمۃ اللہ علیہ
کہتےہیں
عراف وہ ھے
جوعلامات کی روشنی میںچوری یاگم ہوجانےوالی اشیاءکی نشاندہی کرے
اوردیگرمعاملات میں
طرح طرح کےدعوے
کرے
٪بعض اھل علم٪
کہتےہیں
عراف اورکاھن ایک ہی ھے
یعنی وہ شخص جومستقبل میںرونما
ہونےوالےواقعات کی خبردے
٪بعض کےھاں٪
جودل کی باتوںکی خبردے
اسےکاہن کہتےھیں
٪ابن تیمیہ٪
فرماتےہیں
عراف ایسالفظ ھےجو
کاہن،نجومی،رمال اوراس قسم کےتمام
دوسرےلوگوںپربولا
جاتاھے. . . . .
٪آواز٪اسلام٪میسج٪٪سروس٪پاکستان٪
---------------------------------------------------
* 28 *جـادوکـی شــرعی حــیثیــت
...جواپنےمخصوص اندازسےبعض امورکی
کی خبریںدیتےہیں
(مجموعہ الفتاوی ابن تیمیہ173/35)
سیدناعبداللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما
فرماتےھیںجولوگ حروف ابجدلکھ کر
حساب کرتےاور
ستاروںسےرہنمائی لیتےھیںان کےلیے
اللہ کےہاںآخرت میںکوئی حصہ نہیں
<السنن الکبری للبیھقی139\8>
*بدشگونی قرآن کی نظرمیں*
اوریادرکھیےان فالیں
نکالنےوالوںاور
نکلوانےوالوںاوربلا
دلیل چیزوںکو منحوس سمجھنےوالوں کی مت اس حدتک ماری جاتی ہے.....
آوازاســـــلام میـــج
ســـروس پاکـــــتان
---------------------------------------------------
¶جادوکی شرعی حیثیت     29
.....کہ اتنی ہوش بھی نہیں رھتی کہ
چیزوںکو منحوس سمجھنافرعون ودیگر
کفارکاطریقہ ھےاور
 اسےوہ انبیاءعلیہم السلام کی تکذیب کےلیےاستعمال کرتےتھے
¶القرآن
* اوربلاشبہ یقینا
 ہم نےفرعون کی
آل کو
قحط سالیوں
اور پیداوارکی
کمی کےساتھ پکڑا تاکہ وہ
نصیحت پکڑیں
توجب ان پر
خوش حالی آتی توکہتے
یہ توہمارےہی لیےہے
  اوراگرانھیں
کوئی تکلیف
پہنچتی تو¶
موسی¶اوراس کے
ساتھ والوںکےساتھ
  نحوست پکڑتے
سن لو
ان کی نحوست تو¶
اللہ¶ہی کےپاس ہے
اورلیکن ان کےاکثر
نہیںجانتے *
[الاعراف 130.131]
آواز¶اسلام¶میسج¶¶سروس¶پاکستان¶¶خضر¶عباس¶چٹھہ

---------------------------------------------------
ღجادوکی شرعی حیثیتღ     30
* بدشگونی قرآن کی نظرمیں *
 انھوںنےکہا
بلاشبہ ہم نےتو
نامبارک خیال کیاہے تمھیں
البتہ اگر
نہ تم بازآئے
توضرورہم
سنگسارکردیںگے تمھیں
 اورالبتہ ضرور
پہنچےگی تمھیں
ہماری طرف سے
سزا بہت دردناک
 انہوںنےکہا
 تمھاری نحوست تمھارےساتھ ہے
( جوتمھاری ہی
وجہ سےہے )
کیا اگر تم
نصیحت کیےجاؤ
<توکیایہ نحوست ہے؟>
بلکہ تم لوگ ہی ہو
حد سے بڑھنے والے
[ یس 18 . 19 ]
آوازღاسلامღمیسجღسروسღپاکستان
---------------------------------------------------

Sunday, 20 July 2014

*رمضان المبارک میسج* 
*‏الاخلاص ميسج سروس * 5678984-0300

*رمضان المبارک*
میسج1)
استقبال رمضان کاروزہ
ابوھریرہ
رضی اللہ عنہ 
بیان کرتےھیں کہ
  رســـول الــلــه
  صلی الله علیه 
 وسـلم نےفرمایا!
تم میں سےکوئی 
شخص رمضان سے
ایک یادو دن
پہلےروزہ نہ رکھے
البتہ وہ شخص جو
اپنےمعمول کےمطابق
روزےرکھتا آرہاھے
وہ رکھ سکتاھے
[بخاری1914]
--------------------------------------------------------------------

*رمضان المبارک*
میسج2)
روزوں کی فرضیت
اور ان کا مقصد:
*القرآن*
اےایمان والو!
تم پرروزےفرض
کردیےگۓھیں
جیساکہ تم سے
پہلےلوگوں پر
فرض کیےگۓ
تاکہ تم متقی بن جاؤ
سورۃ بقرہ/183]
*مفہوم*
اللہ تعالی نےروزوں
کامقصد یہ بیان 
فرمایاھے
کہ تم پر روزے 
اس لیے
فرض کیےگۓھیں
تاکہ تم متقی بن جاؤ
متقی کون ھے؟
جن کاموںکےکرنےکا
اللہ تعالی نےحکم دیاھے
ان پرعمل کرنےوالا
اورجن سےمنع فرمایا
ان سے رک جانےوالا
متقی ھے

------------------------------------------------------------------



Saturday, 15 March 2014

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے متعلق معلومات


امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے متعلق معلومات  !!!!!!!!!!

برائے مہربانى گزارش ہے كہ امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ اور ان كے مذہب كے متعلق ہميں معلومات فراہم كريں، كيونكہ ميں نے بعض افراد كو ان كى تنقيص اور تنقيد كرتے ہوئے سنا ہے، كيونكہ اكثر طور پر وہ قياس اور رائے پر اعتماد كرتے ہيں.

الحمد للہ:

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ فقيہ ملت اور عراق كے عالم دين تھے، ان كا نام نعمان بن ثابت التيمى الكوفى اور كنيت ابو حنيفہ تھى، صغار صحابہ كى زندگى ( 80 ) ہجرى ميں پيدا ہوئے اور انہوں نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ جب كوفہ آئے تو انہيں ديكھا تھا، اور انہوں نے عطاء بن ابى رباح سے روايت كى ہے اور يہ ان كے سب سے بڑے شيخ اوراستاد تھے، اور شعبى وغيرہ بہت ساروں سے روايت كرتے ہيں.

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ نے طلب آثار كا بہت اہتمام كيا اور اس كے ليے سفر بھى كيے، رہا فقہ اور رائے كى تدقيق اور اس كى گہرائى كا مسئلہ تو اس ميں ان كا كوئى ثانى نہيں جيسا كہ امام ذہبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ان كى سيرت كے ليے دو جلديں دركار ہيں "

ابو حنيفہ فصيح اللسان تھے اور بڑى ميٹھى زبان ركھتے تھے، حتى كہ ان كے شاگرد ابو يوسف رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" سب لوگوں سے زيادہ بہتر بات كرنے والے اور سب سے ميٹھى زبان كے مالك تھے "

ورع و تقوى كےمالك، اور اللہ تعالى كى محرمات كا سب سے زيادہ خيال ركھنے والے تھے، ان كے سامنے دنيا كا مال و متاع پيش كيا گيا تو انہوں نے اس كىطرف توجہ ہى نہ دى، حتى كہ قضاء كا منصب قبول كرنے كے ليے انہيں كوڑے بھى مارے گئے يا بيت المال كا منصب لينے كے ليے ليكن انہوں نے انكار كر ديا "

بہت سارے لوگوں نے آپ سے بيان كيا ہے، آپ كى وفات ايك سو پچاس ہجرى ميں ہوئى اس وقت آپ كى عمر ستر برس تھى.

ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 16 / 390 - 403 ) اور اصول الدين عند ابى حنيفۃ ( 63 ).

رہا حنفى مسلك تو يہ مشہور مذاہب اربعہ ميں شامل ہوتا ہے، جو كہ سب سے پہلا فقہى مذہب ہے، حتى كہ يہ كہا جاتا ہے: " فقہ ميں لوگ ابو حنيفہ كے محتاج ہيں "

حنفى اور باقى مسلك كے يہ امام ـ ميرى مراد ابو حنيفہ مالك، شافعى اور احمد رحمہم اللہ ـ يہ سب قرآن و سنت كے دلائل سمجھنے كے ليے جتھاد كرتے، اور لوگوں كو اس دليل كے مطابق فتوى ديتے جو ان تك پہنچى تھى، پھر ان كے پيروكاروں نے اماموں كے فتاوى جات لے كر پھيلا ديے اور ان پر قياس كيا، اور ان كے ليے اصول و قواعد اور ضوابط وضع كيے، حتى كہ مذہب فقھى كى تكوين ہوئى، تو اس طرح حنفى، شافعى، مالكى اور حنبلى اور دوسرے مسلك بن گئے مثلا مذہب اوزاعى اور سفيان ليكن ان كا مسلك تواتر كےساتھ لكھا نہ گيا.

جيسا كہ آپ ديكھتے ہيں كہ ان فقھى مذاہب كى اساس كتاب و سنت كى اتباع پر مبنى تھى.

رہا رائے اور قياس كا مسئلہ جس سے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ اخذ كرتے ہيں تو اس سے خواہشات و ھوى مراد نہيں، بلكہ يہ وہ رائے ہے جو دليل يا قرائن يا عام شريعت كے اصولوں كى متابعت پر مبنى ہے، سلف رحمہ اللہ مشكل مسائل ميں اجتھاد پر " رائے " كا اطلاق كرتے تھے، جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے اس سے مراد خواہش نہيں.

امام ابو حنيفہ نے حدود اور كفارات اور تقديرات شرعيۃ كے علاوہ ميں رائے اور قياس سے اخذ كرنے ميں وسعت اختيار كى اس كا سبب يہ تھا كہ امام ابو حنيفہ حديث كى روايت ميں دوسرے آئمہ كرام سے بہت كم ہيں ان سے احاديث مروى نہيں كيونكہ ان كا دور باقى آئمہ كے ادوار سے بہت پہلے كا ہے، ابو حنيفہ كے دور ميں عراق ميں فتنہ اور جھوٹ بكثرت تھا اس كے ساتھ روايت حديث ميں تشدد كى بنا پر احاديث كى روايت بہت كم كى.

يہاں ايك چيز كى طرف متنبہ رہنا چاہيے كہ جو حنفى مذہب امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى طرف منسوب ہے وہ سارے اقوال اور آراء نہيں ہيں جو ابو حنيفہ كے كلام ميں سے ہيں، يا پھر ان كا امام ابو حنيفہ كى طرف منسوب كرنا صحيح ہے.

ان اقوال ميں سے بہت سارے ايسے ہيں جو امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى نص كے خلاف ہيں، انہيں اس ليے ان كا مذہب بنا ديا گيا ہے كہ امام كى دوسرى نصوص سے استنباط كيا گيا ہے، اسى طرح حنفى مسلك بعض اوقات ان كے شاگردوں مثلا ابو يوسف اور محمد كى رائے پر اعتماد كرتا ہے، اس كے ساتھ شاگردوں كے بعض اجتھادات پر بھى، جو بعد ميں مسلك اور مذہب بن گيا، اور يہ صرف امام ابو حنيفہ كے مسلك كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ آپ سارے مشہور مسلكوں ميں يہى بات كہہ سكتے ہيں.

اگر كوئى يہ كہے:

اگر مذاہب اربعہ كا مرجع اصل ميں كتاب و سنت ہے، تو پھر فقھى آراء ميں ان كا ايك دوسرے سے اختلاف كيوں پاتے ہيں ؟

اس كا جواب يہ ہے:

ہر امام اس كے مطابق فتوى ديتا تھا جو اس كے پاس دليل پہنچى ہوتى، ہو سكتا ہے امام مالك رحمہ اللہ كے پاس ايك حديث پہنچى ہو وہ اس كے مطابق فتوى ديں، اور وہ حديث امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس نہ پہنچى تو وہ اس كے خلاف فتوى ديں، اور اس كے برعكس بھى صحيح ہے.

اسى طرح ہو سكتا ہے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس كوئى صحيح سند سے حديث پہنچے تو وہ اس كے مطابق فتوى دے ديں، ليكن وہى حديث امام شافعى رحمہ اللہ كے پاس كسى دوسرى سند سے پہنچے جو ضعيف ہو تو اس كا فتوى نہ ديں، بلكہ وہ حديث كے مخالف اپنے اجتھاد كى بنا پر دوسرا فتوى ديں، اس وجہ سے آئمہ كرام كے مابين اختلاف ہوا ہے ـ يہ اختصار كے ساتھ بيان كيا گيا ہے ـ ليكن ان سب كے ليے آخرى مرجع و ماخذ كتاب و سنت ہے.

پھر امام ابو حنيفہ اور دوسرے اماموں نے حقيقت ميں كتاب و سنت كى نصوص سے اخذ كيا ہے، اگرچہ انہوں نے اس كا فتوى نہيں ديا، اس كى وضاحت اور بيان اس طرح ہے كہ چاروں اماموں نے يہ بات واضح طور پر بيان كى ہے كہ اگر كوئى بھى حديث صحيح ہو تو ان كا مذہب وہى ہے، اور وہ اسى صحيح حديث كو لينگے، اور اس كا فتوى دينگے، اور وہ اس پر عمل كرينگے.

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول ہے: " جب حديث صحيح ہو تو وہى ميرا مذہب ہے "

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" كسى شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ ہمارے قول كو لے اور اسے علم ہى نہ ہو كہ ہم نے وہ قول كہاں سے ليا ہے "

اور ايك روايت ميں ان كا قول ہے:

" جو شخص ميرى دليل كا علم نہ ركھتا ہو اس كے ليے ميرى كلام كا فتوى دينا حرام ہے "

ايك دوسرى روايت ميں اضافہ ہے:

" يقينا ہم بشر ہيں "

اور ايك روايت ميں ہے:

" آج ہم ايك قول كہتے ہيں، اور كل اس سے رجوع كر لينگے "

اور رحمہ اللہ كا قول ہے:

" اگر ميں كوئى ايسا قول كہوں جو كتاب اللہ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے مخالف ہو تو ميرا قول چھوڑ دو "

اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميں تو ايك انسان اور بشر ہوں، غلطى بھى كر سكتا ہوں اور نہيں بھى، ميرى رائے كو ديكھو جو بھى كتاب و سنت كے موافق ہو اسے لے لو، اور جو كتاب و سنت كے موافق نہ ہو اسے چھوڑ دو "

اور ان كا يہ بھى قول ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد ہر ايك شخص كا قول رد بھى كيا جا سكتا ہے، اور قبول بھى كيا جا سكتا ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول رد نہيں ہو سكتا صرف قبول ہو گا "

اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميں نے جو كوئى بھى قول كہا ہے، يا كوئى اصول بنايا ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ميرے قول كے خلاف حديث ہو تو جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول ہے وہى ميرا قول ہے "

اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك اور شافعى اور اوزاعى اور ثورى كى، تم وہاں سے لے جہاں سے انہوں نے ليا ہے "

اور ان كا يہ بھى قول ہے:

" امام مالك، اور امام اوزاعى اور ابو حنيفہ كى رائے يہ سب رائے ہى ہے، اور يہ ميرے نزديك برابر ہے، صرف حجت اور دليل آثار ـ يعنى شرعى دلائل ـ ہيں "

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى سيرت اور ان كے مسلك كے متعلق يہ مختصر سا نوٹ تھا، آخر ميں ہم يہ كہتے ہيں كہ:

ہر مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ ان اماموں كى فضيلت اور مقام و مرتبہ كو پہچانے، كہ ان لوگوں نے اس كى دعوت نہيں دى كہ ان كے قول كو كتاب اور صحيح حديث سے بھى مقدم ركھا جائے، كيونكہ اصل ميں تو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كى اتباع ہے نہ كہ لوگوں كے اقوال.

اس ليے كہ ہر ايك شخص كا قول ليا بھى جا سكتا ہے، اور اسے رد بھى كيا جا سكتا ہے، ليكن رسول صلى اللہ عليہ وسلم اكيلے ايسے ہيں جن كا قول رد نہيں كيا جا سكتا، ان كے قول كو قبول كيے بغير كوئى چارہ نہيں، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كہا كرتے تھے.

اور عمر الاشقر كى كتاب: المدخل الى دراسۃ المدارس و المذھب الفقھيۃ كا مطالعہ بھى كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

Thursday, 13 March 2014

[Parda Muhafiz-e Niswa'n] SMS NO.16 TO



[Parda Muhafiz-e Niswa'n]

11th jamadi ul awwal
  Al-khamis 1435H.

Topic:
[Parda Muhafiz-e Niswa'n]
No.16

@ Ghazwa Badar K Moqa Par Umme Warqa Binte Nawafal Razi Allahu Anha Ny Rasoolullah Sallallahu Alaihe Wasallam Ki Khidmat Men Arz Kiya:
"Mugy Bhi Ijazat Dijiye K Apk Sath Jang Men Chalun Aur Zakhmiyon Aur Baimaron Ki Dekh Bhal Ka Kaam Karon, Shaid Is Trha Sy Allah Mugy Bhi Rutba Shahadat Sy Sarfaraz Farma Dy."
ap Ny Farmaya:
tum Apnay Ghar Hi Men Tik Kr Raho Tmhen Allah Shahadat Ka Rutba Atta Farma Dy Ga.

>> Sunan Abi Dawood Kitab us Salat H 591.

Source: Al-Huda sms
4wrd by:

ANMOL SMS
[0321-4061454]
[0300-9408132]



15th jamadi ul awwal
  Al-isnayn 1435H.

Topic:
[Parda Muhafiz-e Niswa'n]
No.17

H A D E E S :
Hazrat Abduallah Bin Masood Razi Allahu Anhu Farmaty Hain Rasoolullah Sallallahu Alaihe Wasallam Ny Farmaya:
"Aurat Parda Hy.
Jb Wo Ghar Sy Nikalti Hy To Shetan Uski Taaq Men Hota Hy Aur Wo Apnay Rab Ki Rehmat K Sb Sy Qareeb Us Waqt Hoti Hy Jb Wo Ghar Men Hoti Hy."

> Sunan Tirmizi Kitab Ul Razaa H # 1173.
> Sunan Ibne Maja.
> Ibne Haban 412/12,
H # 5598.
> Tibrani Fi Al Kabeer 10115.
> Ibne Khuzayma 1686.

@ App Anmol service k tamam Sms (Face book) par Mara Group Join Kar k B receive kar sakte hy

Search Group:
Anmol islamic SMS

Source: Al-Huda sms
4wrd by:

ANMOL SMS
[0321-4061454]
[0300-9408132]


Wednesday, 12 March 2014

Allah kaha hy?





عہد سلف کے بعداستوى على العرش پر علماء کے اقوال

ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر مستوی ہے اور اسکا عرش اسکے تمام آسمانوں سے اوپر ہے اور وہ اپنی تمام مخلوقات سے الگ ہے بلند و بالا بزرگ و برتر اپنی مخلوقات کی حالت میں نہیں ہے۔ وہی ہے جو سب سے اعلی و ارفع اپنی تمام تر مخلوقات سے اوپر پاک و مقدس ذات ہے۔ یہی عقیدہ کتاب و سنت کے دلائیل سے ، اجماع صحابہ سے، تابعین و تبع تابعین سے، اور ان کے بعد آنے والے تمام علماء ومحققین سے ثابت ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن کے مختلف مقامات پر اس بات کو واضح کیا۔

1


۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ سورۃ الاعلی آیت 1



اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر "


2


۔ يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿50﴾ سورۃ النحل آیت 50

"

اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں "



اور پھر 6 مختلف مواقع پہ فرمایا:

3



۔ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ

سورۃ الاعراف آیت 54

سورۃ یونس آیت 3

سورۃ الرعد آیت 2

سورۃ الفرقان آیت 59

سورۃ السجدہ آیت 4

سورۃ الحدید آیت 4

"



پھر عرش پر مستوی ہوا"

4



۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ۔۔ سورۃ فاطر آیت 10

"



تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے، "

5



۔ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿158﴾ سورۃ النساء آیت 158

"



بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں واﻻ ہے "

6



۔ أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ﴿16﴾ سورۃ الملک آیت 16

"



کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بےخوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے "

یہاں آسمان کا مطلب بلندی یا وہ معروف آسمان جو اوپر ہیں۔ اسی طرح یہاں "فی" "علی" کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی "فی السماء" کا مطلب" آسمان میں" نہیں بلکہ" آسمان کے او پر "ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نہ تو کسی چیز سے محصور ہے اور نہ وہ اپنی مخلوقات میں سے کسی چیز کے اندر داخل ہے۔ اسکی مثال سورۃ الانعام کی آیت نمبر 11 میں اللہ نے فرمایا "قل سیروا فی الارض" یعنی زمین پر چلو نہ کہ زمین میں چلو۔ اور یہ واضح ہے کے انسان زمین کے اوپر ہی چلتا ہے نہ کی زمین کے اندر۔ جسطرح یہاں فی کامطلب علی استعمال ہوا ہے اسی طرح اوپر کی آیت میں بھی فی کا معنی علی استعمال ہوا ہے۔ اسکی دوسری مثال سورۃ طہ میں جو اللہ تعالی نے فرعون کی بات نقل کرتے ہوے فرمایا کہ " وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ" "میں تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا" میں بھی "فی" "علی" کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

اب ہم احادیث رسول ز کی روشنی میں اس عقیدے کو واضح کرتے ہیں۔

1



۔ صحیح مسلم میں معاویہ بن الحکم السلمی کی وہ روایت جس میں انہوں نے رسول اللہ ز سے اپنی لونڈی کو آزاد کرنے کا پوچھا تو آپ ز نے فرمایا کہ اسے میرے پاس لاؤ۔ آپ ز نے اس لونڈی سے پوچھا کہ "اللہ کہاں ہے؟" تو اس نے کہا کہ آسمان پر۔ پھر آپ ز نے پوچھا کہ "مین کون ہوں" تو اس نے کہا کہ اللہ کے رسول۔ تب آپ ز نے فرمایا۔ اسے آزاد کر دو۔ بے شک یہ مومنہ ہے۔

یہی حدیث 15 مختلف روایات میں موجود ہےجن میں سے چند یہ ہیں۔

صحیح مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِه حدیث نمبر 836

سنن ابی دائود، حدیث نمبر795 بَاب تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ فِي الصَّلَاةِ

سنن نسائ، حدیث نمبر 1203، باب الْكَلَامُ فِي الصَّلَاةِ

2



۔ حضرت جابر بن عبداللہ ر نے فرمایا کہ رسول اللہ ز نے عرفۃ کے دن اپنے خطبہ میں فرمایا۔ کہ لوگو، کیا میں نے اللہ کا پیغام پنہچا دیا؟ تو سب نے کہا جی ہاں، پھر آپ ز اپنی انگلی مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر لوگوں کی طرف کرتے ہوے فرماتے "اے اللہ تو گواہ ہو جا"

صحیح مسلم، حدیث نمبر 2137 باب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

3



۔ حضرت ابو ھریرۃ ر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ز نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ رات کے فرشتے ہیں اور کچھ دن کے۔ یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے پاس رات گذاری ہو اسکی طرف "یعنی اللہ کی طرف" اوپر چڑھتے ہیں۔ پھر اللہ ان سے پوچھتاہے۔ حالانکہ وہ خود جانتا ہے۔ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے کہتے ہیں۔ جب ہم ان کے پاس گئے تو انہیں نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ اور جب ہم نے انہیں چھوڑا تو بھی نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر 2983، باب ذکر الملائیکۃ، کتاب بدء الوحی۔

4



۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص ر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ز نے فرمایا۔ زمین والوں پر تم رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔

سنن ابی دائود، حدیث نمبر ۴۲۹۰، باب فی الرحمۃ، کتاب الادب۔

5



۔ حضرت انس ر فرماتے ہیں کہ حضرت زینب بنت جحش اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ میری شادی ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اللہ رب العزت نے کروائ ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر6870، باب وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، کتاب التوحید۔

6



۔ حضرت ابی سعید الخدری ر فرماتے ہیں کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ ز نے فرمایا، کیا تم مجھے امین تسلیم نہیں کرتے؟ حالانکہ مجھے اس نے امین تسلیم کیا جو آسمان پر ہے۔ میرے پاس آسمان سے خبر صبح و شام آتی ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر 4004، باب حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنھما کو یمن بھیجنا۔ کتاب المغازی۔

7



۔ حضرت ابو ھریرۃ ر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ز نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کسی عورت کا خاوند اسے اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے تو آسمان کے اوپر والا اس عورت پر اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اسکا خاوند اس سے راضی نہ ہو جائے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر 2595، باب تَحْرِيمِ امْتِنَاعِهَا مِنْ فِرَاشِ زَوْجِهَا، کتاب النکاح۔

8



۔ رسول اللہ ز کا معراج کا واقعۃ جس میں آپ ز نے فرمایا کہ پھر مجھے ساتوں آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا۔ سدرۃ المنتھی کے پاس۔ وہاں میں نے اللہ کو سجدہ کیا۔ پھر اللہ نے پچاس نمازوں کا حکم دیا۔ الی آخرہ۔

سنن نسائی۔ حدیث نمبر 446۔ کتاب الصلاۃ، باب فَرْضُ الصَّلَاةِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاخْتِلَافُ أَلْفَاظِهِمْ فِيه۔

9



۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ر کا حضرت عائیشہ رضی اللہ عنہا سے یہ کہنا کہ اللہ نے آپکی براءت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے نازل کی ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر 2366۔

10



۔ رسول اللہ ز کا سعد بن معاذ ر کو بنی قریظہ کے درمیان فیصلہ کرنے پر یہ فرمانا کہ یہی فیصلہ اللہ کا ساتوں آسمانوں کے اوپر سے ہے۔

السنن الکبری للبیہقی، باب أخذ السلاح وغيره بغير اذن الامام، جلد ۹ ص ۶۳۔

اور یہی عقیدہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین و تبع تابعین سے ثابت ہے۔ اور ان اثبات میں سے حضرت عبد اللہ بن رواحۃ کی طرف منسوب وہ شعرہمارے لیے کافی ہے کہ:

شهدت بأن وعد الله حق ... وأن النار مثوى الكافرينا

وأن العرش فوق الماء حق ... وفوق العرش رب العالمينا

وتحمله ملائكة غلاظ ... ملائكة الإله مسومينا

الكتاب : الإستيعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر جلد ۱ ص ۲۵۵

میں نے گواہی دی کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ کافروں کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔ اور یہ حق ہے کہ اسکا عرش پانی پر تھا۔ اور یہ کہ عرش کے اوپر رب العالمین ہے۔ اور اس معبود کے عرش کو بہت ہی مکرم اور اس کے مقرب فرشتے اٹھائے ہوے ہیں۔

اور جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو اسے بے شمار آئیمۃ مسلمین نے بیان کیا ہے۔

1



۔ امام اوزاعی ( المتوفى سنة 157هـ ) فرماتے ہیں کہ ہم اور دیگر بہت سے متبعین سنت یہی کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی اپنے عرش پر مستوی ہے اور ہم اسکی تمام ثابت شدہ صفات اسی طرح مانتے ہیں جس طرح وہ وارد ہیں۔

2



۔ امام عثمان بن سعید الدارمی فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔

3



۔ الإمام قتيبة بن سعيد ( المتوفى سنه 240هـ) فرماتے ہیں: کہ آئیمہ اسلام اور اھل السنۃ والجماعۃ کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالی ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر ہے جیسا کہ اس نے قرآن میں فرمایا " الرحمن علی العرش استوی"

4



۔ امام أبو زرعة الرازي ( المتوفى سنة 264هـ ) اور امام أبو حاتم فرماتے ہیں: کہ ہم جتنے بھی علماء سے ملے ہیں ان سب کا یہی مذہب ہے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر اپنی تمام مخلوقات سے الگ ہے اور ویسا ہی ہے جیسا اس نے اپنے لیے وصف کیا بغیر کسی کیفیت و مثال کے۔ اور اس کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے۔

5



۔ امام ابن عبد البر حافظ المغرب ( المتوفى سنة 463هـ ) اپنی کتاب التمهيد ( 6/ 124) میں حدیث نزول کی شرح میں فرماتے ہیں اور یہ حدیث بہت سے متواتر اور عادل رواۃ سے نبی ز سے منقول ہے، جس میں یہ دلیل ہے کہ اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ اور محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اس دلیل "الرحمن علی العرش استوی" کو معتزلۃ اور جھمیۃ کی بات " کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے" کے رد میں واضح کیا ہے

6



۔ امام الحافظ أبو نعيم صاحب الحلية اپنی كتاب محجة الواثقين میں فرماتے ہیں : کہ تمام محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالی تمام آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ اور اس کے اوپر کوئ چیز مستوی نہیں جیسا کہ جھمیۃ کا یہ کہنا کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔

7



۔ ابن المبارك رحمه الله ( المتوفى سنه 181هـ ) سے یہ پوچھا گیا کہ ہمارے لیے اللہ کو پہچاننا کس طرح لائیق ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: کہ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر۔ اور ہم جھمیۃ کی طرح یہ قطعا نہیں کہیں گے کہ وہ ہر جگہ یعنی یہاں زمین پر بھی موجود ہے۔

8



۔ امام الذهبي اپنی کتاب "العلو" کے آخر میں فرماتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے عرش کے اوپر ہے جیسا کہ تمام صحابہ تابعین اور تبع تابعین کا اس بات پر اجماع ہے۔ اور بعد میں پیدا ہونے والو ں کا یہ باطل قول ہے کہ اللہ نہ توکسی جگہوں پر ہے اور نہ ان سے باہر، اور نہ ہی وہ اپنے عرش پر ہے، نہ وہ اپنی مخلوقات سے متصل ہے نہ منفصل۔ نہ سمتوں میں ہے نہ سمتوں سے باہر۔ اوریہ بڑی ہی ناسمجھی اور بے عقلی کی بات ہے کہ وہ نہ اس میں ہے نہ اس میں ہے نہ یہاں ہے نہ وہاں ہے۔ اور پھر یہ بات ویسے بھی بے شمارر آیا ت و احادیث کے مخالف ہے۔

پس جو یہ کہتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے وہ دراصل اس بات کی نفی کرتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر سب سے بلند ہے۔ تو اس کا یہ کہنا نہ صرف قول باطل ہے بلکہ اللہ کے ساتھ کفر کرنا بھی ہے۔ کیونکہ اس باطل قول سے حلول اور مخلوقات کے ساتھ امتزاج جیسے کفریہ عقیدہ کا اثبات ہوتا ہے۔

اسی لیے اما م ابن خزیمۃ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو اس بات کا انکار کرے کہ اللہ تعالی ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اسے توبہ کرنی چاہیے۔ پس اگر تو وہ توبہ کرلے تو بہتر ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے اور اسے سر عام لٹکا دیا جائے تاکہ اہل علاقہ اس سے عبرت حاصل کریں۔

اور جو یہ کہے کہ اللہ تعالی اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے تویہی حق ہے۔ اور اسے اس بات کو واضح کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی اپنے علم و ادراک کے لحاظ سے ہر جگہ ہے مگر اپنی ذات کے لحاظ سے ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنی تمام تر مخلوقات سے الگ اپنے عرش پر مستوی ہے۔ تاکہ اسکی بات حلول کے کفریہ عقیدۃ سے مشابہت نہ کرے۔ اور یہی اصل معنی ہے "وھو معکم این ما کانوا " کا کہ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی ہو تم ہو۔

اور اللہ رب العزت کا یہ فرمان:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٧﴾ سورۃ المجادلۃ

کہ

"



کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وه ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ زیاده کی مگر وه ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وه ہوں، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاه کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے "

اس آیت سے مراد اللہ کا اپنے علم کے لحاظ سے ہر کسی کے ساتھ ہونا ہے جیسا کہ آیت کہ آخری حصہ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سے بھی واضح ہے۔

امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے صحیح مروی ہے کہ اللہ تعالی ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے اور اسکا علم ہر جگہ ہے۔ اس سے کوئ چیز اوجھل نہیں۔ امام أبو عمرو الطلمنكي فرماتے ہیں کہ تمام مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت سے مراد علم ہے۔

القاضي أبو بكر الباقلاني اپنی کتاب الإبانة میں لکھتے ہیں کہ کیا تم اس آیت سے یہ مراد لو گے کہ اللہ تعالی ہر جگہ ہے؟ معاذاللہ بلکہ وہ تو اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ خود اس نے قرآن مجید میں فرما دیا "الرحمن علی العرش استوی" اور اسی طرح قرآن کی وہ تمام آیات جو اوپر مذکور ہیں اسی بات پر دلالت کرتی لیں۔

اور اگر ہم یہ کہیں کہ وہ ہر جگہ ہے تو معاذاللہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ ہمارے پیٹ میں ہے۔ ہماری گندگی میں ہے، ہمارے پائوں کے نیچے ہے۔ والعیاذ باللہ۔

لہذا ہمیں اللہ رب العزت کی وہ تمام صفات ویسے ہی ماننا ہوں گی جیسا کہ اس نے بیان کیں۔ بغیر کسی تشبیہ اور تاویل کے۔ جیسا کے اللہ کے ہاتھ ہیں، اللہ کے پائوں ہیں۔ اللہ کی پنڈلی ہے۔ اللہ سنتا ہے، دیکھتا ہےلیکن جیسے اسکے شایان شان ہے۔ ہم نہیں کہ سکتے کہ کیسے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا " لیس کمثلہ شئی" اس جیسی کوئ چیز نہیں۔

جسے اہل سنت والجماعت کے عقیدہ اور ان کے دلائیل کا تفصیلی مطالعہ کرنا ہو وہ درج ذیل کتب کا مطالعہ کرے۔

1-



كتاب الإيمان والتوحيد لابن منده .

2-



الإبانة لابن بطة العكبري.

3-



التوحيد لابن خزيمة.

4-



كتاب أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للطبري اللالكائي.

5-



كتاب الإبانة للإمام أبي الحسن الأشعري .

6-



كتاب العلو للحافظ الذهبي.

7-



كتاب الفتوى الحموية لابن تيمية.

8-

كتاب اجتماع الجيوش الإسلامية لابن القيم.



اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت کوسمجھنے اور اسکے مطابق اپنا عقیدہ درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم بالصواب